سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اجلاس، سینیٹر مصدق ملک نے برطانیہ سے 190 ملین پاؤنڈز آنے کا معاملہ اٹھادیا،

سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہواسینیٹر مصدق ملک نے برطانیہ سے 190 ملین پاؤنڈزآنے کا معاملہ اٹھادیا،حکومتی سینیٹرز نے بھی سینیٹر مصدق ملک کے موقف کی تائید کردی،سینیٹر مصدق ملک  نے کہاکہ کمیٹی نے گزشتہ اجلاس میں برطانیہ سے آنے والے 190 ملین پاؤنڈز کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کو تین دن کا وقت دیا تھا، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ  یہ پیسے اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں نہیں آئے،  برطانیہ کی ریمیٹر ایجنسی نے وہ پیسے متعلقہ بینک کو بھیجے، سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ  جو پیسہ اکنامک کرائم ایکٹ کے تحت پکڑا گیا وہ حکومت کے اکاؤنٹ میں کیوں نہیں آیا اب تو قانون بن چکا ہے ترسیلات زر پر کوئی پوچھ نہیں ہوگی اسٹیٹ بینک کی ریگولیٹری ذمہ داری ہے کہ اسے پتہ ہونا چاہیے، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک نے کہا  وہ فنڈز نیشنل بینک کے پاس رجسٹرار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں گئے ہیں، سینیٹر مصدق ملک  نے کہا 
ابھی یہ بھی کنفرم نہیں کیا جارہا کہ یہ اکنامک کرائم ایکٹ کے تحت آئے ہیں میڈیا پر اس 250 ملین ڈالر کے بارے میں بات ہورہی ہے اور اسٹیٹ بینک ریگولیٹر ہے اسے پتہ نہیں، کرائم ایکٹ کا پیسہ حکومت کے پاس آنا چاہیے سپریم کورٹ کا رجسٹرار حکومت نہیں ہے، کونسے قانون کے تحت یہ پیسے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں گئے، وزارت خزانہ حکام نے کہا کہ  کیپٹل فنڈز کی تفصیلات کا ریکارڈ رکھنا اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہےایگزیکٹیو ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک  نے کہا وفاقی حکومت کے اداروں کو اسییٹ ریکوری یونٹ کے ذریعے برطانیہ سے پوچھنا چاہیے،متعلقہ بینک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فنڈز کا جائزہ لے گا، گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر  نے کہا کہ ہم تیاری کرکے آئے ہیں کہ آپ کے سوال کا جواب دیں،  یہ رقم اسٹیٹ بینک کے پاس نہیں آئی جس بینک کے اکاؤنٹ میں آئی انہوں نے جائزہ لیا، ٹرانزیکشن اگر ٹھیک نہیں ہے تو فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اس کا جائزہ لیتا یے، اسٹیٹ بینک انفورسمنٹ نہیں کرتا بلکہ ریگولیٹر ہے

About admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے