سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈی چوک،ریڈ زون میں حکومت اور قائد خزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے جلسے ،احتجاجی ریلیوں کے خلاف غیر معمولی کیس میں واضح کیا ہے کہ آرٹیکل 95 پر آئین کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے ،آرٹیکل 95 کے تحت معاملہ ہمارے سامنے زیر سماعت نہیں ہے ۔
واضح رہے آرٹیکل 95 وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے طریقہ کار سے متعلق ہے ،اسی آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے قائد خزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی میں تحریک عد م اعتماد جمع کروا رکھی ہے۔قانونی ماہرین کا ماننا ہے تحریک عدم اعتماد پر کارروائی میں تاخیر نہیں ہوسکتی ۔
سینئر وکیل ایڈووکیٹ امجد شاہ آرٹیکل 95 پر آئین کے تحت کارروائی عمل میں لانے سے متعلق عدالتی آبزرویشن پر قانونی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں حکومت کا رویہ غیر جمہوری ہے ، حکومت چاہتی ہے لڑائیا ں ہوں ،ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں ملک میں خانہ جنگی ہو ،سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے زریعے پورے سسٹم کو ڈی ریل کرنے سے روکا گیا ہےاور کہا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر آئین و قانون کے تحت عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے ۔
رپورٹ جہانزیب عباسی
سپریم کورٹ میں ہفتے کے دن چیف جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے ڈی چوک،ریڈ زون میں حکومت اور قائد خزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے جلسے ،احتجاجی ریلیوں کے خلاف صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کی ۔ واضح رہے یہ کیس پیر کے دن سماعت کیلئے مقرر تھا لیکن پھر ہنگامی بنیادوں پر کیس پیر کے بجائے آج ہفتے کے دن سماعت کیلئے مقرر کیا گیا ۔عام طور پر ہفتے کے د ن مقدمات نہیں سنے جاتے تاہم سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں ہفتے اور اتوار کے دن بھی عدالتی مقدمات کی سماعتوں کی مثالیں موجود ہیں ۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل خالد جاوید کے علاوہ آئی جی اسلام آباد پولیس اور سیکرٹری داخلہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے ۔اٹارنی جنرل نے گذشتہ شام سندھ ہائوس کے ناخوشگوار واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تشدد کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کوئی ازخود نوٹس نہیں، عدالت کے سامنے ایک درخواست موجود ہے۔
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل منصور اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہم آپ کی درخواست سن رہے ہیں ،آپ کی درخواست میں ہے کہ تمام متعلقہ حکام کو عدم اعتماد کے آئینی عمل میں مداخلت سے روکا جائے اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کا حکم دیا جائے۔چیف جسٹس نے مزید کہا سیاسی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے ہمیں اس سے مطلب نہیں۔ یہاں آئین کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا گزشتہ روز فیصلہ ہوا ہے کہ پارٹی وفاداری بدلنے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کیا جائے گا، ریفرنس تیاری کے عمل میں ہے ۔چیف جسٹس نے کہاجب عدالت کے سامنے معاملہ آئے گا تو اس کو سنیں گے، ہمارے سامنے اس وقت یہ معاملہ ہے کہ گزشتہ شام جو کچھ ہوا وہ اظہار رائے کی آزادی اور قانونی احتجاج سے بڑھ کر تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ عدالت کو اس واقعے کا پس منظر بتانا چاہیں گے کہ تحریک انصاف کے بعض اراکین کو سندھ ہاؤس میں رکھا گیا تھا جس کی پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی نے ایک پریس کانفرنس میں تردید کی تھی، یہ معاملہ ہارس ٹریڈنگ کے ایک پرانے مرض کی نشاندہی ہے، یہ ایک الزام ہے اور اس کے بعد ہی سیاسی صورتحال میں گرمی پیدا ہوئی، تشدد کی کسی صورت بھی گنجائش نہیں۔
عدالت عظمیٰ کے ایک سوال پر اٹارنی جنرل نے بتایا 100 کے لگ بھگ افراد پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے تھے جن میں سے 20 سے 25 افراد سندھ ہاؤس پہنچے اور تشدد میں ملوث ہوئے،پولیس نے مقدمہ درج کر کے 13 افراد کو گرفتار کیا اور سنیچر کی صبح ان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ جرم کے بعد کیا مقدمے میں لگائی گئی تمام دفعات قابل ضمانت تھیں؟اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ غیر قانونی طور پر اکھٹا ہونے کی دفعہ سمیت کئی دفعات لگائی گئیں جو قابل ضمانت تھیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا بلوہ کرنا، دھاوا بولنا اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانا قابل ضمانت جرم ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں اس کی سزا دو سال قید ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے یہ اہم ہے کہ سیاسی سرگرمیاں آزادانہ اور قانون کے مطابق ہوں ،افراتفری کی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے،پبلک پراپرٹیز ،قومی اداروں کو اسمبلی اراکین کے زریعہ دھمکایا جانا قابل قبول نہیں ہے،ان اداروں کو آئینی تحفظ حاصل ہے ،ہمیں توقع ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں تحمل کا مظاہرہ کریں گی۔جسٹس منیب اختر نے کہا،صدارتی ریفرنس دائر کرنے کا کہا جارہا ہے، تحریک عدم اعتماد جمع ہوچکی ،دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا ہم نے قانونی سوال کو دیکھنا ہے ،جمہوری عمل کو متاثر نہیں ہونے دیں گے ،ہمیں پارلیمنٹ اور اراکین پارلیمنٹ کا مکمل احترام ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا ہمیں آئی جی اسلام آباد پولیس تحریری رپورٹ دیں ، سندھ ہائوس کا واقعہ کیا تھا؟ وفاق کی اکائی سمجھے جانے والے سندھ ہائوس کو نقصان پہنچایا گیا ،پولیس نے کیا اقدامات کیے ،قائد خزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں سے بھی توقع ہے وہ تحمل کا مظاہرہ کریں گی۔
ایک موقع پر جب صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے ویڈیو لنک کے زریعے دلائل دینے کی کوشش کی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انھیں روکتے ہوئے جسٹس منیب اختر سے بات کی ۔پھر چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ درخواست گذار ہیں ،آپ کے وکیل یہاں دلائل کیلئے موجود ہیں ،آپ دونو ں طرف کھیلنے سے گریز کریں ۔جسٹص منیب اختر نے کہا مداخلت نہیں کریں ۔
فنی خرابی کے سبب صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے دلائل سننے میں صحافیوں کو خاصی دشواری رہی ۔احسن بھون نے دلائل میں کہا فیڈریشن کی اکائی سمجھے جانے والے سندھ ہائوس پر حملہ کیا گیا ۔چیف جسٹس نے کہا ہم حملے کے الفاظ استعمال نہیں کر رہے ،وہ بات نہ کریں جس سے خرابی پیدا ہو
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں تحمل کا مظاہرہ کریں گی۔ جہاں تک آئین کے آرٹیکل 63 اے کا تعلق ہے اس کو الگ سے سنیں گے۔ امن وامان برقرار رکھنے کے لیے لائی گئی اس درخواست کا صدارتی ریفرنس سے تعلق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز کے لیے بہت احترام ہے۔
سماعت کے اختتام پر عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ شام اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع سندھ ہاؤس میں ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گیٹ توڑنے پر مقدمے کا اندراج کیا گیا، 13 افراد کو گرفتار کیا گیا جن کو بعد ازاں ضمانت پر رہا کیا گیا۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور یقین دہائی کرائی کہ حکومت امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے تمام اقدامات کرے گی۔
’جہاں تک آرٹیکل 95 کے تحت سیاسی عمل کا تعلق ہے اس وقت عدالت اس کو نہیں دیکھ رہی۔ اس پر قانون کے مطابق عمل کیا جائے۔ فی الوقت عدالت کی توجہ گزشتہ رات پیش آنے والے واقعے پر ہے عوامی مفاد میں اس کو دیکھ رہے ہیں۔
عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ سندھ ہاؤس میں پیش آنے والے واقعے پر رپورٹ دیں گے اور بتائیں گے کہ کیا یہ قابل ضمانت جرم تھا۔
عدالتی حکم کے مطابق ’اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے تاحال ایسا کچھ نہیں کیا تاہم یہ توقع کی جاتی ہے کہ کوئی بھی غیر قانونی عمل نہیں کیا جائے گا۔ عدالت کے سامنے فی الوقت کوئی بھی سیاسی جماعت موجود نہیں۔
سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز پارٹی ،جے یو آئی ف ،بی این پی مینگل ،اے این پی کو مقدمے میں فریق بنادیا ۔کیس کی سماعت پیر کے دن ایک بجے ہوگی ۔