وفاقی پولیس کی لیڈی کنسٹیبل اقراء نذیر کی مشکوک موت کا معاملہ،خواتین پولیس اہلکاروں کینجنسی استحصال بارے متعدد شکایات کا ڈراپ سین،تھانہ آپبارہ میں ایس ایچ او کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔مقدمہ قتل کی دفعہ 302 ت پ کے تحت درج کیا گیا لیکن مقدمہ میں کیس کے کئی پہلو نظرانداز اور مدعی بھی پولیس خود ہی کیوں بن گئی مشکوک جگہ مشکوک انداز اور محدود موقف نے پولیس پر کئی سوالات اٹھا دیئے جبکہ خواتین پولیس اہلکار ہیڈکوارٹر افسران بارے سنگین جنسی ہراسگی اور بلیک میلنگ کی شکایات اعلی افسران سمیت چیف جسٹس ہائیکورٹ کو بھی کر چکی ہیں لیکن استحصال نہیں روکا جا سکا۔درج ایف آئی آر کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق مرحومہ لیڈی کنسٹیبل کی موت زہریلی چیز کھانے سے ہوئی۔لیڈی کنسٹیبل کی موت انتہائی پراسرار اور مشکوک حالات میں ہوئی۔ڈیڈ باڈی پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردی گئی تھی۔معاملے کے متعلق آئی جی اسلام آباد نے اعلی پولیس افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔تحقیقاتی کمیٹی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے تحقیقات میں بھی مصروف ہے۔حیران کن امر یہ بھی ہے کہ پولیس نے مقدمے میں جائے وقوعہ کا ذکر نہیں کیا اور مقتولہ 11 بجے پولیس لائن سے بینک جانے کے لیے نکلی جبکہ 3 بجے ایس پی عارف شاہ کے گھر سے پولی کلینک ہسپتال منتقل کیا گیا اس حوالے سے ایف آئی آر میں ذکر نہ ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آئی جی کے احکامات پر بننے والی اعلی سطحی انکوائری کمیٹی اصل قاتل کا پردہ چاک کرتی ہے یا پردہ پوشی کی جاتی ہے۔
