تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس پر سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ آج بھی گزشتہ سماعت والا ہی مسئلہ ہے، مناسب ہو گا کہ وکلا اور دیگر افراد باہر چلے جائیں، جو کھڑے ہیں وہ لاؤنج میں سماعت سن لیں، اس سے پہلے کہ عدالت کو سختی سےباہرنکالنا پڑے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب پہلے آپ کو سنیں گے، ہم نے سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کر رکھے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں ہم صوبوں کو بھی نوٹس جاری کریں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں، عدالت چاہیے تو صوبوں کو نوٹس جاری کرسکتی ہے، صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلے ہی کیس کا حصہ ہیں، اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے خیال میں صوبوں کا کردار نہیں، ہر عدالت کی صوابدید ہے، وزارت اعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں جمع نہیں ہیں۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے معاونت کے لیے تمام صوبوں کو نوٹس جاری کر دیے۔ سماعت کے دوران رضا ربانی نے کہا کہ میری درخواست پر اعتراض عائد کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رضا ربانی صاحب ہم دیکھ لیتے ہیں، آپ کو بھی سنیں گے، پہلے جلسے کے خلاف کیس سن لیتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے متعلق حکام کو جلسے سے متعلق عدالتی احکامات بارے آگاہ کیا، جے یو آئی (ف) اور تحریک انصاف نے جلسے کیلئے درخواستیں دیں، جے یو آئی (ف) نے درخواست میں دھرنے کا کہا ہےاٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی (ف) کہتی ہے کشمیر ہائی وے پر دھرنا دیں گے، قانون کے مطابق ووٹنگ کے دوران دھرنا نہیں دیا جا سکتا، قانون کہتا ہے 48 گھنٹے پہلے جگہ خالی کرنی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! ہم نے آئین اور قانون کو دیکھنا ہے، ہم انتظامی امور میں مداخلت نہیں کر سکتے اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ ہدایت دے کہ ماحول پرامن رہے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں ہم نے کہا ہے کہ ہم پرامن رہیں گے، درخواست کا فیصلہ انتظامیہ کو کو کرنے دیں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ سے ڈرتے ہیں، جس پر کمرہ عدالت میں مسکراہٹیں پھیل گئیں سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکومت کی ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس پر تشویش کا اظہار کیا چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سندھ ہاؤس واقعہ پر سندھ حکومت کو سنیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس پر دی گئی رائے پر سختی سے عملدرآمد کی پابندی پر دلائل دوں گا، منحرف اراکین کے ٹی وی پر انٹرویو چلے، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت پارٹی منشور پر الیکشن جیتنے والا پارٹی وفاداری تبدیل کرے تو اسے استعفی دینا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ فیصلہ 1999 کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا جی بالکل اور اب 2022 ہے، میں آئینی ڈھانچے پر دلائل دوں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا ذکر ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈیکلریشن پارٹی سربراہ جاری نہیں کر سکتا، اس کے لیے فورمز موجود ہیں۔
