وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی اور عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔ عدالت نےقراردیا کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ دیکھے گی، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ میں شامل ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں اور بار کونسلز کے وکلاء دلائل مکمل ہو چکے ہیں، پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کے دلائل بھی مکمل ہو چکے ہیں۔
سماعت کے آغاز پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں کل رات بہت الارمنگ صورتحال ہوگئی، گزشتہ رات حمزہ شہبازکو نجی ہوٹل میں وزیراعلیٰ بنا دیاگیا، آج سابق گورنرپنجاب حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لینے والے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان پروسیڈنگز میں پنجاب اسمبلی کو ٹچ نہیں کر رہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ آئین 10، 12 صفحوں کی کتاب ہے جسے کسی بھی وقت پھاڑ سکتاہوں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تقریرناکریں، ہم پنجاب کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ کل ٹی وی پربھی دکھایا گیاکہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دیں۔
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کہا کہ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟ یہ کیا کر رہے ہیں پنجاب میں آپ لوگ؟
مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ممبران اسمبلی کہاں جائیں جب اسمبلی کو تالے لگا دیے گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ دیکھے گی، خود فریقین آپس میں بیٹھ کرمعاملہ حل کریں، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔
مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے: وکیل صدر عارف علوی
صدر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کی کارروائیوں کو الگ الگ استحقاق حاصل ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیاموجودہ کیس میں اسمبلی کارروائی کا اثر باہر نہیں ہوا؟ جبکہ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ کوئی بھی غیرآئینی اقدام پارلیمنٹ میں ہوتا رہے اس کو تحفظ حاصل ہے؟ ہم آئین کہ حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں، اگرپارلیمنٹ میں کوئی غیرآئینی حرکت ہو رہی ہے تو کیا اس کا کوئی حل نہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے، مجھے آپ کی تشویش کا اندازہ ہے مگر ہمیں وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگرپارلیمنٹرین کے ساتھ کچھ غیرآئینی ہو تو ان کے پاس اس کی کوئی دادرسی نہیں ہو سکتی؟ جس پر علی طفر نے بتایا کہ برطانیہ کی ہاؤس آف کامن میں ایک ممبرکو حلف لینے نہیں دیا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ مداخلت نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا اگر یہ پارلیمنٹ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو تو پھر کیا کریں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججزکے آپس میں اختلافات ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی ویسےہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل پارلیمنٹ کی چاردیواری کے اندرکا معاملہ ہے؟ کسی اقدام کے نتائج کا اثرپارلیمنٹ سے باہر ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے، جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا انتخاب یا تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، چیف جسٹس نے کہا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے؟
عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہو جاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا: چیف جسٹس
صدر مملکت کے وکیل نے کہا کہ پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتاہے، آئین کے تحفظ کے لیے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے، اگر ججز میں تفریق ہو، وہ ایک دوسرےکو سن نہ رہے ہوں تو کیا پارلیمنٹ کچھ کر سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، عدالت کو خود معاملہ نمٹانا ہے، وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قومی اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے، اس کو اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹرمنتخب کرنا ہے، وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی توڑنے کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہو جاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا، جس پر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، عدالت یہ کہے کہ اب معاملہ پاکستان کے عوام پر چھوڑا جائے، عدالت کو قرار دینا چاہیے کہ غیرقانونی حرکت ہوئی بھی ہے تو فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کرے، اگر پارلیمان قانون سازی نہ کرے تو کیا ہوگا؟ جس پر صدر پاکستان کے وکیل نے کہا کہ قانون سازی نہ ہو تو پرانے قوانین ہی برقرار رہیں گے، جمہوریت اور الیکشن کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ووٹرز سب سے زیادہ بااختیار ہیں، جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نے آئین سے منافی قرار دیا تھا، جونیجوکیس میں عدالت نے کہا کہ معاملہ الیکشن میں جا رہا ہے اس لیےفیصلہ عوام ہی کرےگی۔
عدالت کو سیاسی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے، بس آئین پربات کرنی چاہیے: بیرسٹر علی ظفر
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتمادکے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں، جس پر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مانتا ہوں کوئی آئینی بحران نہیں ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہے، اگرکوئی بھی ناکام ہو رہا ہو تو کیا ایسے رولنگ لاکر نئے الیکشن کرا لے؟ انتخابات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، انتخابات کی کال دےکر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگارچھوڑ دیاجاتا ہے۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ جہاں تک صدرکی بات ہے وہ وزیراعظم کی ایڈوائس پرعمل کرتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی اب بھی سب سے زیادہ اکثریت رکھنے والی جماعت ہے، مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیاجائے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیس کے سیاسی محرکات میں نہیں جانا چاہتا، عدالت کو سیاسی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے، بس آئین پربات کرنی چاہیے۔
وزیراعظم کے وکیل امیتاز صدیقی کے دلائل
عمران خان کے وکیل روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جب وزیراعظم کےخلاف عدم اعتمادہو تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا، اسپیکر کی رولنگ نے اسمبلی توڑنےکا راستہ ہموار کیا، ہم نےکل بھی کہا تھاکہ اس اقدام کی وجہ اور نیت کو دیکھیں گے، اسپیکر کی رولنگ بظاہر آئین کے آرٹیکل 95کے برخلاف ہے، دیکھناہے یہ کوئی آئین کے مینڈیٹ کو شکست دینےکا گریٹر ڈیزائن تو نہیں، یہ سب صورت حال قومی مفاد میں نہیں ہے۔
عدالت پارلیمنٹ کو اپنا گند خود صاف کرنےکا کہے: عمران خان کے وکیل کے دلائل
امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سے احتراز برتتی رہی ہے، چوہدری فضل الٰہی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا اور تشدد کیا گیا تھا، عدالت نے اس صورتحال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی تھی، ایوان کی کارروائی میں مداخلت عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمنٹ کو اپنا گند خود صاف کرنےکا کہے، یہ ایوان کی اندرونی کارروائی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سےکہا گیا کہ لیوگرانٹ ہونےکے بعد رولنگ نہیں آسکتی، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آسکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیاکہیں گے؟
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اسپیکر کو معلوم ہو بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو قانون سے ہٹ کربھی ملک کو بچائےگا، اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ کا استحقاق اور اس کی حدودکا تعین عدالت کوکرنا ہے، جس پر امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جوبہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمنٹ اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں، سپریم کورٹ آرٹیکل69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنےکی پابند نہیں ہے۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بظاہر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے جا رہی تھی لیکن ووٹنگ والے دن رولنگ آگئی، یہ رولنگ بظاہر الزامات اور مفروضوں پر مبنی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ موجودہ کیس میں آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور جب آئین کی خلاف ورزی ہو، عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کر سکتی ہے۔